Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

”عادلہ! راحیل کا فون آیا ہے وہ ملنا چاہتا ہے ہم سے۔“ عائزہ اس کے قریب بیٹھ کر سرگوشی کرتے ہوئے گویا ہوئی۔

”ہم…؟“ وہ بالوں میں برش کرتے ہوئے چونک کر بولی۔

”اوہو! ایک تو تم کوڑھ مغز بہت ہو ۔ ہم سے مراد ہے تم میرے ساتھ ہو گی تو مجھے یہاں سے نکلنے میں آسانی ہو گی نا۔“

”نا بابا نا! اس بھوت بنگلے میں ۔ میں دوبارہ کبھی نہیں جاؤں گی ۔
عجیب ڈراؤنی جگہ ہے میں نہیں جاؤں گی بھئی۔“ اس نے ہیئر برش رکھ کر کانوں کو ہاتھ لگا لئے تھے۔

”نخرے مت دکھاؤ بلاوجہ کے ۔ یہ بھی کوئی بات ہے بھلا؟ کسی کی غربت کا اس طرح مذاق اڑانا محض چھچھوڑا پن ہے اور کچھ نہیں۔“

”پھر کیوں مر رہی ہو اس غریب پر دفع کرو اسے۔“

”تم طغرل کو دفع کر دو نا ۔ کیوں پیچھے پڑی ہو اس کے؟“

”تمہیں طغرل کا نام لینے کی ضرورت نہیں۔
(جاری ہے)


”اور تمہیں بھی راحیل کا نام بدتمیزی سے لینے کی ضرورت نہیں ہے۔“ وہ دونوں بلیوں کی مانند ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے غرا رہی تھیں تیور بری طرح بگڑے ہوئے تھے کچھ دیر تک وہ اسی طرح ایک دوسرے کی طرف گھورتی رہیں پھر عائزہ سنبھل کر بولی۔

”میں تم سے لڑنا نہیں چاہتی ۔ تم میری سسٹر ہو ہمیں اس طرح آپس میں اختلاف رکھنا زیب نہیں دیتا ہے۔

”لڑائی کی ابتداء تم ہی کرتی ہو میں نہیں ۔ مجھے شوق نہیں ہے لڑنے کا۔“ عادلہ شانے اچکاتے ہوئے گویا ہوئی تھی۔

”اچھا چلو میں اپنی غلطی مانتی ہوں ۔ مجھے ہی شوق ہے لڑنے کا تم بے چاری تو بہت ہی سیدھی و معصوم ہو۔“

”ہاں وہ تو ہوں ۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔“

”اچھا اب زیادہ اترانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ شرافت سے تم اپنی کسی فرینڈ کی برتھ ڈے کا بہانہ بنا لو پھر ہم چلیں گے۔

”ہر بار برتھ ڈے کا بہانہ نہیں چلے گا کچھ اور سوچتی ہوں۔“

”جلدی سوچنا تم ویسے بھی جھوٹ بولنے میں ماہر ہو۔“

###

کیا بات ہے بہت اداس لگ رہی ہو؟“ وہ ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے چائے پی رہے تھے معاً ساحر خان نے ماہ رخ کی طرف دیکھتے ہوئے اپنائیت سے پوچھا۔

”جی! بہت اداس ہوں میں۔“

”کیا پریشانی ہے؟“

”گھر میں میرا دم گھٹنے لگا ہے مما اور آنٹی شادی کی تیاریوں میں مصروف ہیں شاید آج کل میں وہ لوگ شادی کی تاریخ بھی طے کر دیں  وہ کیلنڈر لے کر حساب کرتے رہتے ہیں۔
“ اس کے انداز میں بے چینی و اضطراب تھا۔

”تم ٹینشن کیوں لے رہی ہو؟ ہم شادی شدہ ہو چکے ہیں“

”ہم شادی شدہ ہو چکے ہیں ۔ یہ بات آپ اور میں جانتے ہیں گھر والوں کو کیا معلوم اس کا بھلا۔“

”کیوں نہیں ۔ تم راضی ہو جاؤ میں تمہارے گھر والوں کو اپنے اس حسین بندھن کے بارے میں بتانے کو تیار ہوں۔“

”نہیں نہیں ۔ مجھے معلوم ہے وہ کبھی بھی اس رشتے کو قبول نہیں کریں گے اور ان سے کوئی بعید نہیں کہ وہ میرے اس فعل کو اپنی غیرت کا مسئلہ بنا کر مجھے قتل کر ڈالیں۔
“ وہ سراسیمگی کی حالت میں گھبرا کر بولی۔

”اوہ رئیلی! اوکے تم پریشان مت ہو۔“ اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر اس نے تسلی دی تھی۔

”پلیز ساحر… پلیز مجھے کہیں بھی لے جاؤ ۔ میں جانے کو تیار ہوں مگر میں اب کسی بھی قیمت پر گھر جانے کو تیار نہیں ہوں۔“ وہ آہستگی سے رونے لگی تھی۔

”روؤ مت پلیز چند دن… محض چند دن لگیں گے ڈاکومنٹس تیار ہونے پر میں جانم! یہ تھوڑا سا وقت میری خاطر برداشت کر لو۔
“ اس نے ہاتھ بڑھا کر ٹشو سے اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بڑی لگاوٹ سے کہا تھا۔

”یہ چند دن کس طرح گزریں گے میں جانتی ہوں۔“ وہ بھیگی آنکھوں سے مسکرا کر گویا ہوئی تھی۔

”وقت کا کام گزرنا ہے یہ گزر جائے گا ۔ ہمارے درمیان حائل رکاوٹوں کو عبور کرتا ہوا  تمہیں قربتیں بخشتا ہوا۔“ ساحر کی آنکھوں میں آنے والے لمحوں کی چمک در آئی۔

”آپ سے زیادہ میں منتظر ہوں اس وقت کا ساحر! مجھے لگتا ہے وہ وقت کبھی نہیں آئے گا۔
“ جہاں ساحر کی آنکھوں میں امیدوں کے دیئے روشن تھے وہیں اس کی نگاہوں میں خوف و اندیشوں کی نمی تھی۔

”وہ وقت آ گیا ہے کیا تم مسز ساحر خان نہیں ہو؟“

”یہ آپ اور میں جانتے ہیں اور میں چاہتی ہوں ساری دنیا والوں کو بتاؤ کہ آپ میرے ہیں۔“ ماہ رخ کے انداز میں جذباتیت تھی۔

”اچھا ایسا ہے تو پہلے اپنے گھر والوں کو تو بتاؤ۔“ اس کے شوخ انداز نے رخ کو شرمندہ کر دیا تھا۔

###

عجیب سی کیفیت دل و دماغ پر طاری تھی ہر شے سے اکتاہٹ و بے زاری محسوس ہونے لگی تھی  کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا اب بھی وہ آفس سے آکر اپنے روم میں لیٹ گیا تھا جب ہی مذنہ مسکراتی ہوئی اس کے قریب آکر بیٹھ گئی تھیں۔

”بہت تھکن ہو گئی ہے بیٹا!“

”کچھ خاص نہیں مما!“ وہ ان کے احترام میں اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔

”کوئی بات ہے ضرور بہت چپ چپ رہنے لگے ہیں  فراز کی یاد آ رہی ہے؟“ وہ اس کے وجیہہ چہرے کو بغور دیکھتے ہوئے پوچھ رہی تھیں جہاں بے حد سنجیدگی تھی۔

”ہوں  ڈیڈی کی غیر موجودگی فیل کر رہا ہوں۔ میں نے کال کی تھی وہ بزنس کی وجہ سے رک گئے ہیں کچھ عرصے بعد یہاں آئیں گے۔“

”وہ تو نامعلوم کب آئیں گے  ہم واپس چلتے ہیں بیٹا۔“

”خیریت ہے ممی! آپ بور ہو گئی ہیں؟“

”جی ہاں  یہاں سب لوگ بدل گئے ہیں مغربی نفسانفسی اور خود غرضی ہمارے یہاں کے لوگوں میں بھی پیدا ہو چکی ہے۔

”یہ کیا کہہ رہی ہیں ممی آپ؟ ایسا کیا ہوا ہے؟“ ماں کو مضطرب دیکھ کر وہ بھی پریشان ہو گیا تھا۔

”کسی اور کی تو میں پروا نہیں کرتی مگر اماں جان نے میرے انکار کے بعد ایک سرد مہر رویہ اپنا لیا ہے بظاہر تو ایسا کچھ محسوس نہیں ہوتا ہے لیکن ان کے تیور بدل گئے ہیں یہ میں دیکھ رہی ہوں۔“

”یہ نہیں ہو سکتا ممی! دادی جان کبھی نہیں بدل سکتیں  مجھے امید ہے آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔
“ وہ کسی طور ماننے کو تیار نہیں تھا۔

”میں بچی نہیں ہوں طغرل! لہجوں میں چھپے تیروں میں پہچانتی ہوں  میرے انکار کو وہ برداشت نہیں کر سکی ہیں۔“

”کیسا انکار ممی! کیا بات ہوئی ہے آپ کی دادی سے؟“

”آپ کی اور پری کی شادی کرنے کی خواہش ہے ان کی  یہی کہہ رہی تھیں مجھ سے اور میں نے انکار کر دیا ہے۔“

”کیوں مما! ایسا کیوں کیا آپ نے؟“ وہ جو ان کی بات سن کر پہلے چونک اٹھا تھا پھر سنجیدگی سے گویا ہوا  اس کے انداز پر مذنہ نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور حیرانی سے گویا ہوئی تھیں۔

”اس لڑکی سے آپ کی بنتی کب ہے بیٹا! شادی عمر بھر کا بندھن ہوتا ہے آپ کی اور پری کی تمام زندگی کیسے گزرے گی؟“

”یہاں ذکر میری انڈر سٹینڈنگ کا نہیں ہے  یہاں ضروری یہ ہے کہ خواہش دادی جان کی ہے۔“

”کسی کی خواہش کی خاطر اپنی زندگی کو داؤ پر نہیں لگایا جاتا ہے طغرل! زندگی ایک بار ملتی ہے بار بار نہیں۔“

”اگر بار بار مل بھی جاتی تو میں ہر بار خود کو دادی جان کی خواہش پر قربان کرنا قابل فخر سمجھتا ممی!“ وہ ان سے احترام آمیز لہجے میں کہہ رہا تھا مگر دادی کیلئے محبت بے حد زور آوری لئے ہوئے تھی۔

”میں جانتی ہوں  آپ اماں جان سے بے حد محبت کرتے ہیں لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ میں ان سے محبت نہیں کرتی ہوں۔“

”یہ محبت تونہیں ہے مما! اگر آپ دادو سے سچی محبت کرتیں تو ان کو منع کرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا  آپ نے انکار کیوں کر دیا ہے؟“

”یہاں صرف ایک اماں جان کی خواہش کا سوال نہیں ہے طغرل! عامرہ  آصفہ ادھر صباحت سب کی خواہش ہے اپنی اپنی بیٹیوں کو میری بہو  آپ کی بیوی بنانے کی۔
“ اس کی خفگی بھری سنجیدگی دیکھ کر وہ حقیقت بیان کر گئی تھیں۔

”یہاں تو بھڑوں کا چھتہ ہے جس سے دور رہنا ہی عقل مندی ہے اور اسپیشلی پری کا معاملہ تو بہت ہی گھمبیر ہے۔ اس کو بہو بنانے کا مطلب ہے سب سے دشمنی مول لی جائے۔“ وہ اکتائے ہوئے لہجے میں گویا ہوئیں۔

”کل تک تو آپ بہت ہمدردی تھیں پری کی  بہت ترس آتا تھا آپ کو اس پر؟ بہت دکھ ہوتا تھا اس کی تقدیر پر  آج آپ کو اسے سہارا دینے کا موقع ملا تو پیچھے ہٹ گئیں؟ سرینڈر کر دیا ہے آپ نے؟“ وہ ایک ایک لفظ جما کر کہہ رہا تھا۔

”ہمدردی فطری جذبہ ہے جو ازخود ہم میں بیدار ہوتا ہے مگر ہمدردی سے ہم دل جوئی کر سکتے ہیں کسی کا مستقبل نہیں سنوار سکتے ہیں۔“

”یہ بہت برا ہوا ہے مما! آپ کو دادی جان کی خواہش کا احترام کرنا چاہئے تھا  آپ نے دادی کو دکھی کر دیا ہے ان کا مان توڑ دیا ہے اور آپ کو شکایت ہے دادی جان سے؟“ وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا س کے چہرے پر ملال و شرمندگی پھیل گئی تھی۔

”خیر  جو ہوا سو ہوا  اب اس کی خبر فراز کو نہ ہو تو بہتر ہے میں نے آپ کی بھلائی و بہتری کیلئے یہ سب کیا ہے۔“ وہ کھڑی ہوتی ہوئی آہستگی سے گویا ہوئی تھیں۔

   1
0 Comments